حضرت مسیح علیہ السلام کا مقبرہ سرینگر کشمیر میں ہے

السلام
حضعرت میسح علیہ السلام کا سرینگر کشمیر میں مقبرہ


حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق نظریات پائے جائے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر پیغبر تھے۔ جو بن باپ پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہدایت کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا تھا۔آپ رسول کریم ﷺ سے چھو سو سال پہلے فسلطین میں پیدا ہوئے تھے۔

عیسائیوں کے مطابق آپ علیہ السلام 33 سال کی عمر میں آسمان پراٹھا لیے گئے تھے۔ اب آپ آسمان پر زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ تشریف فرما ہیں۔ اور دنیا کے معاملات چلا رہےہیں ۔ اور آپ اللہ کے پیارے بلکہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلک

مسلمان بھی عیسائیوں سے ملتا جلتا عقیدہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے مطابق جب حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب دی جانے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی شکل کا ایک آدمی وہاں بھیج دیا اور آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ آپ قرب قیامت آسمان سے اتریں گے۔ امت محمدیہ کی راہنمائی فرمائیں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے اور سور کو قتل کریں گے۔

کیا حضرت عیسی السلام صلیب پر وفات پا گےتھے؟

کئی مؤرخین کا ماننا ہے کہ عیسیٰ مسیح کا انتقال سولی پر چڑھنے سے نہیں ہوا تھا۔ رومن کے ذریعہ سولی پر چڑھائے جانے کے بعد بھی وہ بچ گئے۔ پھر مشرق وسطیٰ ہوتے ہوئے ہندوستان آگئے۔ ان کی باقی کی زندگی  ہندوستان میں ہی گزری۔ روضہ بل میں جس شخص کا مقبرہ ہے اس کا نام یوزآصف ہے۔ مورخین کا ماننا ہے کہ یوزآصف کوئی اور نہیں بلکہ عیسیٰ مسیح یا جیسس ہی ہیں۔


دوسری طرف یہ بات بھی متنازعہ ہے کہ  حضرت عیسیٰ  کی قبر کشمیر میں ہے یا نہیں، ایک طرف دعویٰ اور دوسری طرف طنز، دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔  1973 میں ایک مقامی صحافی عزیز کشمیری نے ’کرائسٹ ان کشمیر‘ نامی کتاب لکھی۔ اس کے بعد اس موضوع پرکئی اورکتب شائع ہوئیں۔ وہیں کشمیر میں آباد مسلم اکثریت اور مؤرخین اس کتاب میں کئے گئے دعووٴں کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ اللہ کے پیغمبروں میں سے ایک ہیں جبکہ مسیحی برادری انہیں خدا کا بیٹا مانتی ہے۔ ایک مقامی عالم کے مطابق اگر حضرت عیسیٰ کے کشمیر آنے کی تھیوری میں کوئی سچائی ہوتی، تو آج کشمیریوں کی اکثریت مسلمان نہیں بلکہ عیسائی ہوتی۔

تمام ڈاکیومنٹری اور کتابوں میں ذکر 

کرائسٹ کے ہندوستان آنے پر بی بی سی لندن نے 42 منٹ کی ڈاکیومنٹری ’’جیسس انڈیا‘‘ بنائی۔ سری لنکا میں تقریباً سوا گھنٹے کی ایک ڈاکیومنٹری بنائی گئی۔ ’’جیسس وازآ بودھشٹ منک‘‘ عیسی کے بھارت آنے پر تمام کتابیں لکھی گئیں۔ کئی دہائی پہلے کشمیر کے مشہور رائٹر عزیز کشمیری نے اپنی کتاب ’’کرائسٹ ان کشمیر‘‘ سے لوگوں کا دھیان کھینچا (جس کا ذکر اوپر کیا گیا)۔ آندریس فیرکیسرنے ’’جیسس ڈائڈ ان کشمیر‘‘ لکھی تو مشہور رائٹر ایڈورڈ ٹی مارٹن نے ’’کنگ آف ٹریولس: جیسس لاسٹ ایئر ان انڈیا‘‘ لکھی۔

پہلگان میں یہودی نسل کے باشندے

سجین اوس نے بھی اسی موضوع پر اہم کتاب لکھی۔ جموں وکشمیرآرکیولوجی ریسرچ اینڈ میوزیم میں آرکائیو محکمہ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فداحسنین کی بھی اس موضوع میں دلچسپی تب پیدا ہوئی، جب وہ لداخ گئے۔ انہیں اس بارے میں بتایا گیا ، تب انہوں نے ریاست میں اس متعلق پرانی کتابیں اور کالم تلاش کرنے شروع کئے، جو کچھ انہیں ملا۔ وہ اشارہ کرتا تھا کہ عیسیٰ مسیح کے ہندوستان آنے کی بات میں دم ہے۔ پہلگام کا علاقہ ڈی این اے کی ساخت کی بنیاد پر مسلمان بنے یہودی نسل کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔

سوال بھی ہیں

کئی ماہرین نے تحقیق سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قبر کسی اور کی نہیں بلکہ عیسیٰ مسیح یا جیسس کی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگرعیسیٰ مسیح کی موت سولی پر چڑھائے جانے کی وجہ سے یروشلم میں ہوئی تو ان کا مقبرہ 2500 کلومیٹر دور کشمیر میں کیسے ہوسکتا ہے۔ بائبل بھی عیسی کو سولی پرچڑھانے کے بعد ان کے 12 بارالگ الگ وقت پرلوگوں کے سامنے آکرانسانی طریقے سے زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے۔

عیسیٰ مسیح کے سلک روٹ سے کشمیر آنے کا دعوی 

عیسیٰ مسیح نے 13 سال سے 30 سال کی عمر کے درمیان کیا کیا، یہ مکمل طور پر پراسرار ہے۔ بائبل میں ان کے مذکورہ سالوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ 30 سال کی عمرمیں انہوں نے یروشلم میں یوحنا (جان) سے ترغیب لی۔ ترغیب کے بعد وہ لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ زیادہ ترماہرین کے مطابق 29 عیسوی کوعیسیٰ یروشلم پہنچے۔ وہیں ان کو سزا دینے کی سازش رچی گئی، جب انہیں صلیب پر لٹکایا گیا، اس وقت ان کی عمر تقریباً 33 سال تھی، اس کے دو دن بعد ہی انہیں ان کی قبرکے پاس زندہ دیکھا گیا، پھروہ کبھی یہودی ریاست میں نظرنہیں آئے، اس کے بعد کے وقت میں ان کے کشمیرمیں ہونے کا ذکر ہے۔ عیسیٰ مسیح نے دمشق، شام کا رخ کرتے ہوئے سلک روٹ پکڑا۔ وہ ایران، فارس ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے، جہاں کشمیر میں وہ 80 سال کی عمر تک رہے۔

احمدیہ فرقہ بھی مانتا ہے

ہندو گرنتھ  بھوشیہ پران میں بھی مبینہ طور پر ذکر ہے کہ عیسیٰ مسیح ہندوستان آئے تھے۔ انہوں نے کرشنپا راجا شالی واہن سے ملاقات کی تھی۔ مسلمانوں کا احمدیہ فرقہ بھی اس پر یقین کرتا ہے کہ روضہ بل میں موجود مقبرہ عیسیٰ مسیح کا ہے۔ احمدیہ فرقہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد نے 1898 میں لکھی اپنی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ یہ لکھا کہ روضہ بل واقع مقبرہ عیسیٰ مسیح کا ہی ہے۔ اور اس کتاب میں آپ نے اپنے حق میں قرآن سے احادیث سے ، طب کے کتابوں سے اور پرانی تاریخ کی کتابوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ہجرت کرکے کشمیر آگے اور کشمیر میں ہی آپ کی وفات ہوئی۔ مزید تفصیل آپ اس کتاب میں پڑھ سکتے ہیں

روسی مورخین نے پہلی بار کیا تھا یہ دعوی

جرمن رائٹر ہولگرکرسٹن نے اپنی کتاب ’’جیسن لیوڈ ان انڈیا‘‘ میں اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ پہلی بار 1887 میں روسی مورخ، نکولائی الیکساندرووچ نوتووچ نے امکان ظاہر  کیا تھا کہ شاید عیسیٰ مسیح ہندوستان آئے تھے۔

ہندوستانی حکومت کی ڈاکیومنٹری کیا کہتی ہے

اس بارے میں ہندوستانی حکومت کے ذریعہ بنائی گئی تقریباً 53 منٹ کی ڈاکیومنٹری ’’جیسس ان کشمیر‘‘ کمال کی ہے، اس نے بہت مستند طریقے سے بتایا ہے کہ کس طرح جیسس ہندوستان میں آکر رہے۔ ان کا یہ سفر لداخ اور کشمیر میں تھا۔

حالانکہ رومن کیتھولک چرچ اور ویٹکن اسے نہیں مانتے۔ یہ ڈاکیومنٹری اشارہ کرتی ہے کہ جیسس اپنے خاص لوگوں کے ساتھ کشمیرآئے تھے، پھریہیں کے ہوکررہ گئے۔ ان کے ساتھ آئے یہودی بھی یہیں کے باشندے ہوگئے۔

یہ مقبرہ سری نگر میں کہاں ہے؟

سری نگر کے جس چھوٹے سے محلے خان یار میں یہ مقبرہ بتایا جاتا ہے، وہ گزشتہ کچھ سالوں میں پوری دنیا کے عیسائیوں اور مذہبی مورخین کی توجہ کا مرکز بھی بنتی رہی ہے۔ خان یار کے روضہ بل میں جو قبر ہے، وہ شمال مشرق سمت میں ہے جبکہ مسلمانوں کی قبریں جنوب مغرب میں ہوتی ہیں۔

بشکریہ نیوز 18